Popular Posts
-
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب سے لڑی جانے جنگ میں جب کافر بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے مسلمان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے تو اس وقت ...
-
ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں ...
-
♥ ♥ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ♥ ♥ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﺍﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ...
-
پیٹ کی چربی کم کرنے کے مؤثر طریقے موٹاپے اور پیٹ کی چربی کو آسان نسخے اختیار کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل کراچی: دنیا بھر میں موٹا...
-
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮐﺌﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ۔ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ...
-
موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آتی ہے - موت کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد دوبارہ موجودہ دنیا میں واپسی ممکن نہیں - موت کے ...
-
کیا کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ پاک فوج ہر غلطی اور خامی سے پاک ہے؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! تب پاک فوج کے خلاف بات کرنے پر واویلا کیوں؟ ک...
-
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو کسی نے دو شاہین کے بچّے تحفے میں پیش کئے۔ بادشاہ نے دونوں کو اپنی شاہینوں کی تربیت کرنے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ ...
-
چئیرمین پشاور زلمی جاوید افریدی کی اسلام آباد میں نقیب اللّٰہ محسود کے قتل کیخلاف احتجاجی دھرنے میں شرکت کی .جاوید افریدی نے نقیب للّٰہ محسو...
-
جھیل سیف الملوک وادای کاغان کا سب سے چمکدار موتی اور اس کے ماتھے کا جھومر جھیل سیف الملوک ناران کے قصبے سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا ...
Wednesday, January 31, 2018
شاہین کی داستان سے آج کے نوجوان کےلیے سبق
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو کسی نے دو شاہین کے بچّے تحفے میں پیش کئے۔ بادشاہ نے دونوں کو اپنی شاہینوں کی تربیت کرنے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ وہ اُن دونوں کو تربیت دیں کہ وہ شکار پر لے جائیں جا سکیں۔
ایک مہینے کے بعد وہ ملازم بادشاہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ ایک شاہین تو مکمّل تربیت یافتہ ہو چکا ہے اور شکار کے لئے بالکل تیّار ہے لیکن دوسرے کے ساتہ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے کہ پہلے دن سے ایک ٹہنی پر بیٹہا ہے اور کوششوں کے باوجود ہلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
اس بات سے بادشاہ کا تجسّس بڑہا اور اس نے درباری حکیموں اور جانوروں اور پرندوں کے ماہرین سے کہا کہ پتہ لگائیں آخر وجہ کیا ہے؟ وہ بھی کوشش کر کے دیکہھ چکے لیکن کوئی نتیجہ معلوم نہ کر سکے۔
پھر بادشاہ نے پورے ملک میں منادی کروا دی کہ جو کوئی بھی اِس شاہین بچے کو قابلِ پرواز بنائے گا، بادشاہ سے منہ مانگا انعام پائے گا۔
اگلے دن بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو شاہین پرواز کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھا، شاہی باغ میں چاروں طرف اُڑ رہا ہے۔ بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ اُس شخص کو پیش کیا جائے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔
بادشاہ کے کارندے ایک دیہاتی کو لے کر بادشاہ کے پاس لائے کہ یہ کمال اِس شخص کا ہے۔
بادشاہ نے اُس شخص سے پوچہا؛ “تم آخر کس طرح وہ کام کر گئے جو میرے دربار کے ماہر حکیم اور پرندوں کو سُدھانے والے نہ کر سکے، کیا تمہارے پاس کوئی جادو ہے؟”
وہ شخص گویا ہوا؛ “بادشاہ سلامت، میں نے صرف اِتنا کیا کہ جس ٹہنی پر یہ بیٹھا ہوا تھا وہ کاٹ دی اور زمین کی طرف گرتے وقت جبلّی طور پر اِس کے پر کُھل کر پھڑپھڑائے اور اسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس میں طاقتِ پرواز ہے۔”
حکایاتِ فارسی
Tuesday, January 30, 2018
پیٹ کی چربی کیوں بڑھتی ہے .
پیٹ کی چربی کم کرنے کے مؤثر طریقے
موٹاپے اور پیٹ کی چربی کو آسان نسخے اختیار کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل
کراچی: دنیا بھر میں موٹاپا اور پیٹ کی چربی سب سے بڑا طبی مسئلہ بنتا جارہا ہے لیکن اسے چند آسان طریقوں کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔
دور حاضر میں جہاں نئی نئی چیزوں کا استعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے وہاں ان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں نہ صرف ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں بلکہ جسم کی بگڑتی ساخت کی وجہ سے بھی لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کیوں کہ پیٹ کی چربی جسم پر سب سے نمایاں ہوتی ہے جبکہ وزن بڑھنے میں بھی سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اس کیفیت نے جہاں دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین و حضرات اور بچوں تک کو اپنا ہدف بنایا ہے وہیں بطورِ خاص امریکا میں مقیم افریقی نسل کی (افریکن امریکن) خواتین اس سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ لیکن موٹا پے کی بیماری پر آسان گھریلو نسخوں اور احتیاطی تدابیر سے بہ آسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
🌸میٹھی اشیاء سے دوری
اکثر لوگ زیادہ میٹھا کھانے کے شوقین ہوتے ہیں اورمشروبات، چائے اور کافی میں میٹھا استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً مٹھائی کھانے والوں میں پیٹ کی چربی زیادہ بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اگر لوگ چینی (شکر) اور دیگر میٹھی چیزوں کا استعمال کھانے میں کم کردیں تو اُس سے پیٹ کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
🌸غذا میں سادہ کاربوہائیڈریٹ میں کمی
سفید روٹی، چھانا ہوا اناج اور میٹھے کھانوں میں سادہ کاربوہائیڈریٹس ہونے کی وجہ سے زیادہ کیلوریز بنتی ہیں جو جسم میں پیٹ کی چربی کو بڑھاتی ہیں۔ اگر سادہ (simple) کاربوہائیڈریٹس کی جگہ پیچیدہ (complex) کاربوہائیڈریٹس یعنی بغیر چھانے ہوئے (مکمل) اناج، پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کیا جائے تو پیٹ کی چربی کم ہونا کوئی ناممکن بات نہیں۔
🌸تلی ہوئی چیزوں سے اجتناب
تیل میں تلی ہوئی چیزیں بنانے اور کھانے میں اگر پاکستانیوں کی بات کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں دفتر ہو یا جامعہ، گھر کی دعوت ہو یا باہر کی، سب جگہ کھانوں میں تیل غیر معیاری اور کثیر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے جو انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے، یہاں تک کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ جسم میں چربی کو بڑھاتا ہے۔ صرف تیل میں پکائی یا تلی گئی اشیاء سے اجتناب پیٹ کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بھی بچاسکتا ہے۔
🌸ورزش
دن کی ابتداء اگر صبح کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا میں ورزش سے کی جائے تو انسان ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ پورا دن چست اور تھکن سے دور رہتا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا مذہبی اعتبار سے بھی مفید ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح سویرے ورزش کرنے سے تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی وجہ سے ہمیں نہ صرف توانائی ملتی ہے بلکہ ہمارا ذہنی تناﺅ کم ہونے سے ہم خوش رہتے ہیں۔
🌸چاق و چوبند رہنا
انسان کو ہمیشہ اپنے آپ کو جسمانی کاموں میں مصروف رکھنا چاہیے کیوں کہ جسمانی سرگرمیوں اور مشقت کی وجہ سے جسم میں چربی پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ دیرکرسی پر بیٹھے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ کرسی چھوڑ کر اپنی جگہ بدلیں اور جسم کو حرکت میں لائیں۔

تلخ داستانیں پردیسیوں کی
♥ ♥ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ♥ ♥
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﺍﮦ
ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﯾﺰﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ
ﻗﺮﺽ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮕﺮ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﯼ ﺭﻗﻢ
ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺻﺤﺖ ﺍﺑﮭﯽ
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ
ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭼﻼ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ
ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭼﮭﭩﯽ ﮐﮯ
ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮﺋﯽ۔ﺑﺎﻗﯽ
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ
ﺣﺎﻟﺖ ﺑﮩﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ
ﺑﺮﺳﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺭﮨﻨﮯ
ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﮔﮭﺮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ
ﺍﻭﺭﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﻣﺮﻣﺖ ﭘﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺧﺮﭺ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﮨﻢ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻨﮑﺮﯾﭧ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻤﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮔﮭﺮ
ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﮔﮭﺮ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ
ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻻﺕ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ
ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺳﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯿﺴﮯ
ﺑﻨﺎ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ۔ ﺧﯿﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮐﺮ
ﺩﯾﺎ ﺁﮔﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ۔
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ
ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ
ﺗﮭﮑﺎ ﺗﮭﮑﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ
ﻣﻼﺯﻣﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﮭﺮ
ﺁﺟﺎﺅﮞ۔ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﭘﮑﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺍﻭﭘﺮ ﺟﻮ ﻗﺮﺿﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﭼﮑﺎ
ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺏ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺁ ﮐﺮ ﺭﮨﻨﮯ
ﻟﮓ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺍﺏ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻤﺖ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﮐﮯ ،
ﭨﯿﮑﺴﯽ ﭼﻼ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﺮﭺ ﭼﻼ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ۔
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﭘﭽﮭﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ
ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﺎ، ﺗﻢ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﮍﮐﭙﻦ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ
ﮔﺌﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﯿﭩﺎ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﮩﻨﺎ ﺯﯾﻨﺐ ﺍﺏ ﺑﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ، ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ۲۰ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺖ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻮ ﺍﺏ ﯾﮩﯽ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﯾﻨﺐ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺳﮑﯿﮟ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ
ﮨﻮﻧﺎ ، ﮨﻢ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻮﺟﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ
ﭼﺎﮨﺘﮯ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ۔
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ،
ﮐﻤﮭﺎﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺟﺐ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭘﭩﮭﮯ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ
ﺑﮭﯽ ﭘﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ
ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺲ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺰﺍ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻭﺍ ﮐﺮ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮐﭽﮫ
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ
ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺁﺯﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ
ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺯﯾﻨﺐ ﺑﮩﻨﺎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﺞ
ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺮﺿﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﻗﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ، ﺑﯽ
ﭘﯽ ﺑﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮔﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﺁﺅﮞ ﮔﺎ، ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ
ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ
ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺰﯾﺪ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ
ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺗﻮ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺩﺍﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﯿﻢ ﺳﮯ ﺳﺴﺘﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ
ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﭼﻼ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ
ﺳﮑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺎﻡ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ
ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﺎ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻢ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺭﻭﺗﮯ
ﺭﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺗﻢ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﺖ ﺭﮨﻨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ
ﺑﯿﻮﯼ ﺯﮨﺮﮦ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ، ﺍﺳﮑﯽ
ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﻟﻮ۔
)ﺑﯿﻮﯼ ( ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﻮ ﺟﻤﺎﻝ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭘﮑﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺿﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ
ﭘﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ۔ ﺁﭘﮑﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﻼﻝ ﮐﯽ
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺗﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ
ﭘﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﺌﯽ
ﻧﻮﯾﻠﯽ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺑﺎﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﺟﻼﻝ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ
ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ
ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ
ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ
ﺑﭽﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ
ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺳﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ
ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮦ ﮐﺮ ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ
ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ۔ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ
ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔
ﺁﭘﮑﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ۔ ﺯﮨﺮﮦ
ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﺯﮨﺮﮦ
ﺍﻧﯿﺴﻮﺍﮞ ﺳﺎﻝ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ، ﺍﻭﺭ
ﺑﯿﺴﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﯿﺎ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ
ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ
ﺁﺳﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻟﮓ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﺗﻤﺎﻡ
ﻗﺮﺿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺳﮯ ﮐﻤﺮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮨﻮ
ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ، ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﻣﻨﭧ
ﻓﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻮﮐﺮﯼ
ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﺎﮦ
ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﻣﻨﭧ ﻓﻨﮉ ﺟﻮ
ﮐﮧ ۲۵۰۰ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﮨﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ۔ ﺍﺗﻨﮯ
ﻟﻤﺒﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ
ﺭﮨﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ
ﮐﻮﭺ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ
ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻤﺌﻦ
ﮨﻮﮞ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ
ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﮯ
ﮐﺎﻡ ﺁﺳﮑﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ۔
ﮨﺮ ﮨﻔﺘﮧ ﮈﯾﮍﮪ ﺑﻌﺪ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ
ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺷﺮﯾﮏ ﺳﻔﺮ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﻮ ﺟﻤﺎﻝ
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ۔
ﭼﺎﮨﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺒﺎ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺒﺮ ﮨﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﭘﮑﮯ ﺁﻧﮯ
ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮍﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺣﻤﺪ
ﮨﮯ ﻧﺎ، ﻭﮦ ﺿﺪ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺁﻑ
ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﺮﭦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺑﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺳﯿﻠﻒ ﻓﻨﺎﻧﺲ ﺳﮯ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻞ
ﮨﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﺑﻮ ﺑﺎﮨﺮ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺁﻑ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﭼﺎﺭ ﻻﮐﮫ ﻓﯿﺲ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺗﯿﻦ ﺗﯿﻦ
ﻻﮐﮫ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﺘﮧ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﺴﭩﺎﻟﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺲ
ﺑﮭﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻣﺎﮦ ﮐﯽ ۳۰
ﺗﮏ ﻓﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻗﺴﻂ ﺑﮭﺮﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ،
ﺁﭘﮑﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻄﺮ ، ﺁﭘﮑﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ۔
ﺯﮨﺮﮦ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﻗﻢ
ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯼ۔ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﮩﯿﺰ ﺍﻭﺭ
ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺑﮭﯿﺠﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺋﺮ ﭘﻮﺭﭦ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﻮﮔﺮ، ﺑﻠﮉ
ﭘﺮﯾﺸﺮ، ﺍﻟﺴﺮ ،ﮔﺮﺩﮮ ﻭ ﮐﻤﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ
ﺍﻭﺭﺟﮭﺮﯾﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﺳﯿﺎﮦ ﭼﮩﺮﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ
ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ
ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﯿﺐ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﻥ ﮐﮭﻼ
ﺧﻂ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﭘﮩﻼ ﺧﻂ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺩﯾﺲ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻻ ۔

Subscribe to:
Posts (Atom)