Popular Posts
-
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب سے لڑی جانے جنگ میں جب کافر بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے مسلمان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے تو اس وقت ...
-
ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں ...
-
♥ ♥ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ♥ ♥ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﺍﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ...
-
پیٹ کی چربی کم کرنے کے مؤثر طریقے موٹاپے اور پیٹ کی چربی کو آسان نسخے اختیار کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل کراچی: دنیا بھر میں موٹا...
-
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮐﺌﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ۔ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ...
-
موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آتی ہے - موت کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد دوبارہ موجودہ دنیا میں واپسی ممکن نہیں - موت کے ...
-
کیا کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ پاک فوج ہر غلطی اور خامی سے پاک ہے؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! تب پاک فوج کے خلاف بات کرنے پر واویلا کیوں؟ ک...
-
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو کسی نے دو شاہین کے بچّے تحفے میں پیش کئے۔ بادشاہ نے دونوں کو اپنی شاہینوں کی تربیت کرنے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ ...
-
چئیرمین پشاور زلمی جاوید افریدی کی اسلام آباد میں نقیب اللّٰہ محسود کے قتل کیخلاف احتجاجی دھرنے میں شرکت کی .جاوید افریدی نے نقیب للّٰہ محسو...
-
جھیل سیف الملوک وادای کاغان کا سب سے چمکدار موتی اور اس کے ماتھے کا جھومر جھیل سیف الملوک ناران کے قصبے سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا ...
Saturday, February 3, 2018
ساغر صدیقی کی پریم کہانی
ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں اس لڑکی کہ گھر والوں نے اسکی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی تھی جو کامیاب نہ ہوئی
لیکن ساغر اپنے گھر کی تمام آسائش و آرام
چھؤڑ چھاڑ کر داتا کی نگری رہنے لگا
جب اسکی محبوبہ کو پتا چلا تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کہ بعد آ خر تاش کھیلتے ھوئے ایک نشئیوں کہ جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا
اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ھاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دیدی ھے اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو
ساغر نے کہا
بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ھم وفاؤں کا صلہ مانگتے ھیں
Friday, February 2, 2018
جاوید آفریدی کی اسلام آباد دھرنا میں اعلانات و احتجاج
چئیرمین پشاور زلمی جاوید افریدی کی اسلام آباد میں نقیب اللّٰہ محسود کے قتل کیخلاف احتجاجی دھرنے میں شرکت کی .جاوید افریدی نے نقیب للّٰہ محسود کے بچوں کیلئے پانج لاکھ روپے کے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ میں اس کیمپ کے انتظامیہ کیلئے بھی پانج لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا.
صحابہ اکرام نے یا محمد ﷺ کا نعرہ کب اور کیوں لگایا
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب سے لڑی جانے جنگ میں جب کافر بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے مسلمان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے تھے تو اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لکھا کہہ کافر و مسلمان میں فرق ہی معلوم نہیں ہوتا اپنا کون ساہ ہے اور بیگانہ کونسا ہے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لکھا جب وہ اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں تو تم اس وقت یا محمد ﷺ کا نعرہ لگاؤ اس دن جو یا محمد یا رسول اللہ ﷺ کہتا تھا اسی کو مسلمان مانا جاتا تھا باقی سب کو قتل کر دیا جاتا تھا جنگِ یمامہ میں صحابہؓ کا یہ نعرہ حق و باطل کے درمیان آج بھی پہچان ہے۔۔۔۔۔۔یا محمدﷺ یا محمدﷺ
آج بھی حق پرستوں اور صحابہؓ کے حقیقی پیروکاروں کی یہی نمایاں علامت ہے
#جنگ #یمامہ #کیوں #لڑی #گئی ،،،،،؟
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں جو نبوت کے دعویدار سامنے آئے ان میں سب سے طاقتور مسیلمہ کذاب تھا۔ جب مسلمان دیگر نبوت کے دعویدار کے خاتمے میں مصروف تھے اس دوران مسیلمہ اپنا دعویٰ نبوت عام کرنے میں مصروف رہا اور اس نے اتنی طاقت حاصل کر لی کہ اس کا چالیس ہزار کا لشکر یمامہ کی وادیوں میں پھیل گیا۔ ابو بکر صدیق نے ان کے مقابلے لیے عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ کی طرف روانہ کیا اور عکرمہ کی مدد کے لیے شرجیل کو بھی روانہ کیا۔ شرجیل کے پہنچنے سے قبل ہی عکرمہ نے لڑائی کا آغاز کر دیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس عرصے میں شرجیل بھی مدد کو آ پہنچے لیکن دشمن کی قوت بہت بڑھ چکی تھی۔ مسیلمہ کی نبوت کی تائید بنی حنیفہ نے بھی کی اس وقت ان کا بہت زور تھا۔ شرجیل نے بھی پہنچتے ہی دشمن سے مقابلہ شروع کر دیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت خالد بن ولید دیگر مرتدین سے نمٹ چکے تھے۔ حضرت ابو بکر نے انہیں عکرمہ اور شرجیل کی مدد کے لیے یمامہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر یمامہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسیلمہ بھی خالد کی روانگی کی اطلاع سن کر مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہوا اور یمامہ سے باہر صف آرائی کی۔ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ ہزار تھی۔ [1]۔ فریقین میں نہایت سخت مقابلہ ہوا۔ پہلا مقابلہ بنو حنیفہ سے ہوا۔ اسلامی لشکر نے اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ بنو حنیفہ بد حواس ہو کر بھاگ نکلے اور مسیلمہ کے باقی آدمی ایک ایک کر کے خالد کی فوجوں کا نشانہ بنتے رہے۔ جب مسیلمہ نے لڑائی کی یہ صورتحال دیکھی تو وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ نکلا اور میدان جنگ سے کچھ دور ایک باغ میں پناہ لی لیکن مسلمانوں کو تو اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنا تھا اس لیے خالد بن ولید نے باغ کا محاصرہ کر لیا۔ باغ کی دیوار اتنی اونچی تھی کے اس کو کوئی بھی پار نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت زید بن قیس نے حضرت خالد بن ولید کو فرمایا میں یہ دیوار پار کر کے تمہارے لیے دروازے کو کھول دوں گا گر تم میرے لیے ایک اونچی سیڑھی بنا دو حضرت خالد بن ولید راضی ہو گئے۔ اگلے دن حضرت زید بن قیس سیڑھی کے ساتھ باغ میں اتر گئے۔ تب مسیلمہ کذاب نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ اس کو قتل کر دو۔ تب اس کے فوجیوں نے حضرت زید بن قیس کے ساتھ لڑائی شروع کردی۔ لڑائی میں حضرت زید بن قیس کا کندھا کٹ گیا۔ پھر بھی انہوں نے دروازے کو کھول دیا۔ ادھر مسلمان صف بندی کرچکے تھے۔ مسلمان یا محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نعرہ لگاتے ہوئے اندر داخل ہونا شروع ہوگئے اور ایک دفعہ پھر گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ اچانک حضرت خالد بن ولید نیزہ لے کر مسیلمہ کو پکارنے لگے،یا عدو الله!اور مسیلمہ پر پھینک دیا، مگر اس کے محافظوں نے ڈھال بن کر اس کو بچالیا۔ اس وقت اس کے محافظ غیر حتمی طور پر اسے چھوڑ کے چلے گئے۔ پھر اسے حضرت حمزہ کے قاتل وحشی (جو مسلمان ہوچکے تھے) نے ایسا نیزہ مارا کہ مسیلمہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس طرح اس نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے کا کفارہ ادا کیا۔ اس کے لشکر کے نصف آدمی مارے گئے۔ تقریباً یمامہ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد خالد بن ولید نے اہل یمامہ سے صلح کرلی۔ یہ جنگ جنگ یمامہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتد/مرتدین کے خاتمے سے اسلامی سلطنت کے لیے ایک بہت بڑا خطرے کا خاتمہ ہو گیا جس میں اہم کردار حضرت ابوبکر کی دینی و سیاسی بصیرت کا تھا۔ اسلام کو انتشار سے بچانے کے لیے یہ آپ کا نہایت اہم کارنامہ ہے۔
Thursday, February 1, 2018
جھیل سیف الملوک میں سیرو تفریح کے لیے کب جائیں
جھیل سیف الملوک وادای کاغان کا سب سے چمکدار موتی اور اس کے ماتھے کا جھومر
جھیل سیف الملوک ناران کے قصبے سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔ جھیل سیف الملوک کے حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں،ان میں سب سے مشہور قصہ سیف نامی شہزادے حسین پری سے اس جھیل پر ملاق
ات کا ہے۔
سطح سمندر سے دس ہزار پانچ سو اٹھہتر فٹ بلندی پر واقع جھیل سیف الملک جانے کیلئے مانسہرہ سے ہوتے ہوئے پہلے بالا کوٹ اور پھر بالاکوٹ سے کاغان ویلی میں داخل ہوتے ہوئے ناران پہنچا جاتا ہے۔ ناران سے جھیل سیف الملوک تک کا سفر14 کلومیٹر ہے جو خاص قسم کی جیپ گھوڑوں اورکچھ دیر تک پیدل چل کر طے کیا جاتا ہے۔ جھیل سیف الملوک پر پہنچتے ہی زبان سے بے اختیارنکلتا ہے سبحان اللہ۔
جھیل سیف الملوک کی سیر و تفریحی کا اصل مزاہ جون جولائی میں آتا ہے اگست کے آخر تک جھیل کی رونقیں مانند پڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اکثر سیاح اگست کے آخر میں آنے والے مایوس نظر آتے ہیں اور نومبر دسمبر میں جھیل مکمل برف سے ڈھک جاتی ہے اور پھر وہاں کوئی نہیں جاتا یوں جھیل اپنے گزرے ہوئے دنوں کی تنہائی میں واپس لوٹ جاتی ہے
جون جولائی میں بھی جھیل کا پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ اس میں زیادہ دیر تک کھڑا یا پاؤں ڈال کر بیٹھا نہیں جاسکتا، پہاڑوں پر برف دیکھ اس تک پہنچنے کا خیال آتا ہے۔ کچھ لوگ ہمت کرکے برف تک پہنچے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان یادگار لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتے ہیں،قریبی پہاڑ پر چڑھ کر جھیل کی طرف دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی۔ جھیل کے اردگرد بہنے والے بہت سے چشمے دیکھ دل مچل اٹھتا ہے کہ ان کا ٹھنڈا شفاف پانی پینے کے لیے بوتلوں میں محفوظ کرلیں جھیل سیف الملوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی گہرائی ابھی تک ناپی نہیں جاسکی ہے۔ جھیل سیف الملوک پر مقامی لوگ پیسے لے کر جھیل سے منسلک شہزادے اور پریوں کی کہانیاں بیان کرتے ہیں، جو ظاہر ہے افسانوی ہوتی ہیں
والدین کی عزت بیٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮐﺌﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ۔
ﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﺎ۔ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺒﮭﺘﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯ ﺟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﮔﮭﺮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮩﺖ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﻭﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﺭﮨﺘﺎ۔ ﮐﺌﯽ ﻣﺎﮦ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺮﯾﺾ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﮨﭩﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺯﺍﺭﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭﺋﮯ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺳﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﭘﺎﺋﯽ۔
ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺫﻟﺖ ﮐﯽ ﺟﺲ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺟﮭﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﻧﻘﺺ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺁﺧﺮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺩﮬﮑﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﯾﮏ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﻧﮯ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺠﻤﮧ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺳﻨﺎﯾﺎ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩ ﺗﺮ ﺳﭩﻮﮈﻧﭧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﯾﺎ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﻣﻨﺪﯼ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﺮﺝ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ . ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻥ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ،ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻃﻌﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﻥ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﮐﯽ،ﮐﮭﻼﯾﺎ ﭘﻼﯾﺎ،ﺍﭼﮭﮯ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎ، ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﺎ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﺮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺯﻣﮧ ﺍﻓﻮﺭﮈ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺴﯽ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﯾﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﺎﺩ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﯾﺎ ﮐﻼﺱ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮﺍﭘﻨﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﭘﺎﺭﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺗﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ۔ اور کسی حد تک ہم معاشرے میں اس بگاڑ کا قصوروار صرف مرد کو ہی نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ جگہ وہی بنتی ہے جہاں موقع دیا جائے ﺑﺲ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻋﻘﻞ ﭘﺮ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻣﺮﺩ ﺻﺮﻑ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ اور آخت میں دونوں کے ہاتھ سوائے بدنامی اور زلت کہ کچھ نہیں آتا ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮﺍﺳﻼﻡ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ، ﺑﮯﺷﮏ ﮨﺮ ﻋﺎﻗﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻟﻎ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺐ ﺟﺐ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﺎ۔
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺎ ﯾﮩﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺭ ﺩﺭ ﮐﯽ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﺩ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺳﮯ ﺍﮐﺘﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺎﮒ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﮐﮯﮔﮭﺮ ﺑﺴﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﺐ ﺻﺒﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻭﮨﺎﮞ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﭘﮭﻞ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺟﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ۔۔
پاک فوج ہماری محافظ
کیا کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ پاک فوج ہر غلطی اور خامی سے پاک ہے؟
ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ !
تب پاک فوج کے خلاف بات کرنے پر واویلا کیوں؟
کیونکہ یہ اس وقت اسلام اور پاکستان دشمنوں کی شدید ترین ضرورت ہے!
دنیا کی سب سے بڑی پراکسی جنگ میں پاک فوج کی بےمثال فتح کے بعد ان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا کہ وہ پاکستان کی بیک وقت افغانستان اور انڈیا سے باقاعدہ جنگ کروا دیں۔
لیکن ایسی جنگ سے پہلے وہ دو کام کرینگے۔
پہلا پاکستان کا معاشی دیوالیہ نکالنا۔ یہ خدمت زرداری اور نواز شریف بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔
دوسرا پاک فوج کی عوامی حمایت کو ممکن حد تک کم کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں پاک فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔
یہ خدمت سرانجام دینے ولے تین طرح کے لوگ ہیں۔
پہلے وہ ملعون سیکولر لبرلز جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر دن رات پاک فوج کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ ملالہ، عاصمہ جہانگیر اور بھینسا وغیرہ۔
ان لوگوں کو لگتا ہے کہ پاک فوج کی بدولت پاکستان کا رشتہ اسلام سے جڑا ہوا ہے ۔
دوسرے وہ مخصوص ذہنیت رکھنے والے ملا ہیں جو منبروں اور سوشل میڈیا پر یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں کلعدم دہشت گرد جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی پیش پیش ہیں۔
ان کو لگتا ہے کہ ان کو طاقت حاصل کرنے سے پاک فوج نے روک رکھا ہے۔
پاک فوج سے نفرت کے معاملے میں ملا اور ملحد ایک پیج پر ہیں ورنہ ان کا پیج دیکھ لیں :)
تیسرے قوم پرست جماعتوں کے پیروکار۔ ان کو لگتا ہے کہ پاکستان کو قومیت کی بنیاد پر تقیسم کرنے میں پاک فوج سب سے بڑی رکاؤٹ ہے۔
ان میں اے این پی، اچکزئی، بی ایل اے اور جسقم جیسی جماعتیں شامل ہیں۔
اسی لیے انہی طبقات پر میں جواباً تنقید کرتا ہوں۔
کیا یہ سیدھی سادی بات سمجھنے کے لیے افلاطون کا دماغ چاہئے ؟
پاک فوج شائد پاکستان کا واحد گروہ ہے جس میں پاکستان کے ہر طبقے حتی کہ ہر خاندان کا فرد شامل ہے اس لیے اس میں وہ سب خامیاں ہونگی جو بطور قوم ہم میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر ۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج کا عمل اور کردار واضح طور پر باقی پاکستانیوں سے اس قدر الگ اور شاندار ہے کہ ناقابل یقین لگتا ہے ۔۔۔۔۔ شائد یہ بھی کوئی معجزہ ہی ہے !
اس کے باؤجود اگر کوئی چھوٹی موٹی بات میرے علم میں آ بھی جائے تو میں پاک فوج پر تنقید کر کے وہ خدمت سرانجام نہیں دینا چاہتا جس کے لیے دشمن اربوں ڈالر صرف کر رہے ہیں !
موت کا المیہ
موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آتی ہے - موت کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد دوبارہ موجودہ دنیا میں واپسی ممکن نہیں - موت کے بعد انسان کو ابدی طور پر ایک نئی دنیا میں رہنا ہے - موت کے بعد صرف بھگتنا ہے، عمل کرنا نہیں ہے -
انسان ایک بے حد حساس( sensitive ) مخلوق ہے - انسان کسی سختی کو برداشت نہیں کر پاتا، خواہ وہ کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو - ہر عورت اور ہر مرد کو سب سے زیادہ یہ سوچنا چاہیے کہ موت کے بعد اگر اس کو سخت حالات میں رہنا پڑا تو وہ کیسے ان کو برداشت کرے گا - اگر انسان یہ سوچے تو اس کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہو جائے -
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہ کہیں گے : الحمد للہ الذی آذھب عنا الحزن( 35:34)- یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کیا - تکلیف( pain ) کی زندگی انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت زندگی ہے - اور تکلیف سے پاک زندگی انسان کا سب سے بڑا مطلوب ہے - انسان اگر اس پہلو کو سوچے تو موت اس کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے - وہ موت کے بارے میں اس سے زیادہ سوچے گا، جتنا وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے -
موت کا تصور آدمی کے لیے ماسٹر اسٹروک( masterstroke ) کی مانند ہے - ماسٹر اسٹروک کیرم بورڈ کی تمام گوٹوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے - اسی طرح اگر آدمی کے اندر موت کا تصور زندہ ہو تو اس کے دماغ کے تمام گوشے ہل جائیں - اس کا سوچنا اور اس کا چاہنا، یک سر بدل جائے - اس کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے گا جو اس کو ایک نیا انسان بنا دے گا - موت سے غفلت آدمی کو ایک بےخبر انسان بناتی ہے - اس کے برعکس، موت کی یاد آدمی کو آخری حد تک ایک باخبر اور باہوش انسان بنا دیتی ہے -
Wednesday, January 31, 2018
شاہین کی داستان سے آج کے نوجوان کےلیے سبق
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو کسی نے دو شاہین کے بچّے تحفے میں پیش کئے۔ بادشاہ نے دونوں کو اپنی شاہینوں کی تربیت کرنے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ وہ اُن دونوں کو تربیت دیں کہ وہ شکار پر لے جائیں جا سکیں۔
ایک مہینے کے بعد وہ ملازم بادشاہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ ایک شاہین تو مکمّل تربیت یافتہ ہو چکا ہے اور شکار کے لئے بالکل تیّار ہے لیکن دوسرے کے ساتہ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے کہ پہلے دن سے ایک ٹہنی پر بیٹہا ہے اور کوششوں کے باوجود ہلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
اس بات سے بادشاہ کا تجسّس بڑہا اور اس نے درباری حکیموں اور جانوروں اور پرندوں کے ماہرین سے کہا کہ پتہ لگائیں آخر وجہ کیا ہے؟ وہ بھی کوشش کر کے دیکہھ چکے لیکن کوئی نتیجہ معلوم نہ کر سکے۔
پھر بادشاہ نے پورے ملک میں منادی کروا دی کہ جو کوئی بھی اِس شاہین بچے کو قابلِ پرواز بنائے گا، بادشاہ سے منہ مانگا انعام پائے گا۔
اگلے دن بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو شاہین پرواز کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھا، شاہی باغ میں چاروں طرف اُڑ رہا ہے۔ بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ اُس شخص کو پیش کیا جائے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔
بادشاہ کے کارندے ایک دیہاتی کو لے کر بادشاہ کے پاس لائے کہ یہ کمال اِس شخص کا ہے۔
بادشاہ نے اُس شخص سے پوچہا؛ “تم آخر کس طرح وہ کام کر گئے جو میرے دربار کے ماہر حکیم اور پرندوں کو سُدھانے والے نہ کر سکے، کیا تمہارے پاس کوئی جادو ہے؟”
وہ شخص گویا ہوا؛ “بادشاہ سلامت، میں نے صرف اِتنا کیا کہ جس ٹہنی پر یہ بیٹھا ہوا تھا وہ کاٹ دی اور زمین کی طرف گرتے وقت جبلّی طور پر اِس کے پر کُھل کر پھڑپھڑائے اور اسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس میں طاقتِ پرواز ہے۔”
حکایاتِ فارسی
Tuesday, January 30, 2018
پیٹ کی چربی کیوں بڑھتی ہے .
پیٹ کی چربی کم کرنے کے مؤثر طریقے
موٹاپے اور پیٹ کی چربی کو آسان نسخے اختیار کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل
کراچی: دنیا بھر میں موٹاپا اور پیٹ کی چربی سب سے بڑا طبی مسئلہ بنتا جارہا ہے لیکن اسے چند آسان طریقوں کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔
دور حاضر میں جہاں نئی نئی چیزوں کا استعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے وہاں ان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں نہ صرف ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں بلکہ جسم کی بگڑتی ساخت کی وجہ سے بھی لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کیوں کہ پیٹ کی چربی جسم پر سب سے نمایاں ہوتی ہے جبکہ وزن بڑھنے میں بھی سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اس کیفیت نے جہاں دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین و حضرات اور بچوں تک کو اپنا ہدف بنایا ہے وہیں بطورِ خاص امریکا میں مقیم افریقی نسل کی (افریکن امریکن) خواتین اس سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ لیکن موٹا پے کی بیماری پر آسان گھریلو نسخوں اور احتیاطی تدابیر سے بہ آسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
🌸میٹھی اشیاء سے دوری
اکثر لوگ زیادہ میٹھا کھانے کے شوقین ہوتے ہیں اورمشروبات، چائے اور کافی میں میٹھا استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً مٹھائی کھانے والوں میں پیٹ کی چربی زیادہ بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اگر لوگ چینی (شکر) اور دیگر میٹھی چیزوں کا استعمال کھانے میں کم کردیں تو اُس سے پیٹ کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
🌸غذا میں سادہ کاربوہائیڈریٹ میں کمی
سفید روٹی، چھانا ہوا اناج اور میٹھے کھانوں میں سادہ کاربوہائیڈریٹس ہونے کی وجہ سے زیادہ کیلوریز بنتی ہیں جو جسم میں پیٹ کی چربی کو بڑھاتی ہیں۔ اگر سادہ (simple) کاربوہائیڈریٹس کی جگہ پیچیدہ (complex) کاربوہائیڈریٹس یعنی بغیر چھانے ہوئے (مکمل) اناج، پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کیا جائے تو پیٹ کی چربی کم ہونا کوئی ناممکن بات نہیں۔
🌸تلی ہوئی چیزوں سے اجتناب
تیل میں تلی ہوئی چیزیں بنانے اور کھانے میں اگر پاکستانیوں کی بات کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں دفتر ہو یا جامعہ، گھر کی دعوت ہو یا باہر کی، سب جگہ کھانوں میں تیل غیر معیاری اور کثیر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے جو انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے، یہاں تک کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ جسم میں چربی کو بڑھاتا ہے۔ صرف تیل میں پکائی یا تلی گئی اشیاء سے اجتناب پیٹ کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بھی بچاسکتا ہے۔
🌸ورزش
دن کی ابتداء اگر صبح کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا میں ورزش سے کی جائے تو انسان ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ پورا دن چست اور تھکن سے دور رہتا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا مذہبی اعتبار سے بھی مفید ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح سویرے ورزش کرنے سے تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی وجہ سے ہمیں نہ صرف توانائی ملتی ہے بلکہ ہمارا ذہنی تناﺅ کم ہونے سے ہم خوش رہتے ہیں۔
🌸چاق و چوبند رہنا
انسان کو ہمیشہ اپنے آپ کو جسمانی کاموں میں مصروف رکھنا چاہیے کیوں کہ جسمانی سرگرمیوں اور مشقت کی وجہ سے جسم میں چربی پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ دیرکرسی پر بیٹھے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ کرسی چھوڑ کر اپنی جگہ بدلیں اور جسم کو حرکت میں لائیں۔

تلخ داستانیں پردیسیوں کی
♥ ♥ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ♥ ♥
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﺍﮦ
ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﯾﺰﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ
ﻗﺮﺽ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮕﺮ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﯼ ﺭﻗﻢ
ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺻﺤﺖ ﺍﺑﮭﯽ
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ
ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ
ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭼﻼ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ
ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭼﮭﭩﯽ ﮐﮯ
ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮﺋﯽ۔ﺑﺎﻗﯽ
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ
ﺣﺎﻟﺖ ﺑﮩﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ
ﺑﺮﺳﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺭﮨﻨﮯ
ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﮔﮭﺮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ
ﺍﻭﺭﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﻣﺮﻣﺖ ﭘﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺧﺮﭺ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﮨﻢ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻨﮑﺮﯾﭧ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻤﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮔﮭﺮ
ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﮔﮭﺮ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ
ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻻﺕ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ
ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺳﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯿﺴﮯ
ﺑﻨﺎ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ۔ ﺧﯿﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮐﺮ
ﺩﯾﺎ ﺁﮔﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ۔
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ
ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ
ﺗﮭﮑﺎ ﺗﮭﮑﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ
ﻣﻼﺯﻣﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﮭﺮ
ﺁﺟﺎﺅﮞ۔ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﭘﮑﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺍﻭﭘﺮ ﺟﻮ ﻗﺮﺿﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﭼﮑﺎ
ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺏ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺁ ﮐﺮ ﺭﮨﻨﮯ
ﻟﮓ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺍﺏ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻤﺖ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﮐﮯ ،
ﭨﯿﮑﺴﯽ ﭼﻼ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﺮﭺ ﭼﻼ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ۔
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﭘﭽﮭﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ
ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﺎ، ﺗﻢ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﮍﮐﭙﻦ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ
ﮔﺌﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﯿﭩﺎ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﮩﻨﺎ ﺯﯾﻨﺐ ﺍﺏ ﺑﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ، ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ۲۰ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺖ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻮ ﺍﺏ ﯾﮩﯽ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﯾﻨﺐ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺳﮑﯿﮟ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ
ﮨﻮﻧﺎ ، ﮨﻢ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻮﺟﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ
ﭼﺎﮨﺘﮯ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ۔
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ
ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ،
ﮐﻤﮭﺎﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺟﺐ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭘﭩﮭﮯ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ
ﺑﮭﯽ ﭘﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ
ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺲ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺰﺍ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻭﺍ ﮐﺮ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮐﭽﮫ
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ
ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺁﺯﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ
ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺯﯾﻨﺐ ﺑﮩﻨﺎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﺞ
ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺮﺿﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﻗﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﺲ ﮐﭽﮫ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ، ﺑﯽ
ﭘﯽ ﺑﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮔﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﺁﺅﮞ ﮔﺎ، ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ
ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ
ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺰﯾﺪ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ
ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺗﻮ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺩﺍﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﯿﻢ ﺳﮯ ﺳﺴﺘﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ
ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﭼﻼ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ
ﺳﮑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺎﻡ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﯾﭧ
ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﺎ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺁﭘﮑﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﻤﺎﻝ
ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻢ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺭﻭﺗﮯ
ﺭﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺗﻢ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﺖ ﺭﮨﻨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ
ﺑﯿﻮﯼ ﺯﮨﺮﮦ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ، ﺍﺳﮑﯽ
ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﻟﻮ۔
)ﺑﯿﻮﯼ ( ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﻮ ﺟﻤﺎﻝ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭘﮑﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺿﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ
ﭘﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ۔ ﺁﭘﮑﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﻼﻝ ﮐﯽ
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺗﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ
ﭘﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﺌﯽ
ﻧﻮﯾﻠﯽ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺑﺎﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﺟﻼﻝ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ
ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ
ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ
ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ
ﺑﭽﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ
ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺳﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ
ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮦ ﮐﺮ ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ
ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ۔ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ
ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔
ﺁﭘﮑﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ۔ ﺯﮨﺮﮦ
ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﺯﮨﺮﮦ
ﺍﻧﯿﺴﻮﺍﮞ ﺳﺎﻝ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ، ﺍﻭﺭ
ﺑﯿﺴﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﯿﺎ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ
ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ
ﺁﺳﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻟﮓ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﺗﻤﺎﻡ
ﻗﺮﺿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺳﮯ ﮐﻤﺮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮨﻮ
ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ، ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﻣﻨﭧ
ﻓﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻮﮐﺮﯼ
ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﺎﮦ
ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﻣﻨﭧ ﻓﻨﮉ ﺟﻮ
ﮐﮧ ۲۵۰۰ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﮨﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ۔ ﺍﺗﻨﮯ
ﻟﻤﺒﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ
ﺭﮨﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ
ﮐﻮﭺ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ
ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻤﺌﻦ
ﮨﻮﮞ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ
ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﮯ
ﮐﺎﻡ ﺁﺳﮑﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ۔
ﮨﺮ ﮨﻔﺘﮧ ﮈﯾﮍﮪ ﺑﻌﺪ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ
ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ۔
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺷﺮﯾﮏ ﺳﻔﺮ – ﺟﻤﺎﻝ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﻮ ﺟﻤﺎﻝ
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ۔
ﭼﺎﮨﮯ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺒﺎ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺒﺮ ﮨﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﭘﮑﮯ ﺁﻧﮯ
ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮍﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺣﻤﺪ
ﮨﮯ ﻧﺎ، ﻭﮦ ﺿﺪ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺁﻑ
ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﺮﭦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺑﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺳﯿﻠﻒ ﻓﻨﺎﻧﺲ ﺳﮯ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻞ
ﮨﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﺑﻮ ﺑﺎﮨﺮ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺁﻑ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﭼﺎﺭ ﻻﮐﮫ ﻓﯿﺲ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺗﯿﻦ ﺗﯿﻦ
ﻻﮐﮫ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﺘﮧ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﺴﭩﺎﻟﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺲ
ﺑﮭﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻣﺎﮦ ﮐﯽ ۳۰
ﺗﮏ ﻓﯿﺲ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻗﺴﻂ ﺑﮭﺮﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ،
ﺁﭘﮑﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻄﺮ ، ﺁﭘﮑﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ۔
ﺯﮨﺮﮦ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﻗﻢ
ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯼ۔ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﮩﯿﺰ ﺍﻭﺭ
ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺑﮭﯿﺠﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺋﺮ ﭘﻮﺭﭦ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﻮﮔﺮ، ﺑﻠﮉ
ﭘﺮﯾﺸﺮ، ﺍﻟﺴﺮ ،ﮔﺮﺩﮮ ﻭ ﮐﻤﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ
ﺍﻭﺭﺟﮭﺮﯾﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﺳﯿﺎﮦ ﭼﮩﺮﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ
ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ
ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﯿﺐ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﻥ ﮐﮭﻼ
ﺧﻂ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﭘﮩﻼ ﺧﻂ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺩﯾﺲ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻻ ۔

Subscribe to:
Posts (Atom)